Wednesday, 16 November 2016

ماں اور قانون دوراہے پر..

ماں اور قانون دوراہے پر..
🖊🖊🖊
ایک بوڑھے بیٹے کا حیران کن مقدمہ.🖋.........
  عبدالمالک مجاہد  سعودی عرب

  سعودی عرب کے شہر بریدہ کے لوگ اور عدالت دونوں کے لیے فیصلہ دشوار ہی نہیں دو بھر ہوگیا تھا.
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے ایک روزنامہ نکلتا ہے۔
      شہر ریاض ہی کی نسبت سے اس کا نام روزنامہ ’’ریاض‘‘ ہے۔ اخبار کے مطابق دو بھائیوں کے درمیان جھگڑے کا مقدمہ اس قدر سنگین صورت اختیار کرگیا کہ اس کا فیصلہ پنچایت میں نہیں ہوسکا، بلکہ مقدمہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ دراصل یہ مقدمہ بالکل نرالی نوعیت کا تھا، اس لیے بہت سے عربی ا خبارات نے اسے نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ ہم روزنامہ ’’ الریاض‘‘ کے حوالے سے واقعے کا خلاصہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔

اس کا نام حیزان تھا۔ سعودی عرب کے معروف شہر ’’ بریدہ‘‘ سے 90 کلو میٹر کے فاصلے پر ’’ اَسیاح‘‘ نامی ایک بستی ہے۔ حیزان نامی بوڑھا اسی بستی کا رہنے والا تھا۔ جب مقدمہ بائی کورٹ پہنچا تو وہ بوڑھا شخص لوگوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی عدالت میں اس قدر رویا کہ اس کے آنسوئوں سے اس کی داڑھی بھیگ گئی، آخر کیوں؟

اس بوڑھے نے بھری عدالت میں لوگوں کے سامنے آنسو کیوں بہائے؟ کیا اس لیے کہ اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ ناروا سلوک کیاتھا؟ کیا اس لیے کہ زمین کے کسی مقدمے میں اس کی ہار ہونے والی تھی؟ یا اس لیے کہ اس کی بیوی نے اس عمر میں اس پر خلع کا مقدمہ دائر کردیا تھا؟

جی نہیں، ان میں سے کوئی بھی وجہ نہیں تھی۔ دراصل وہ بھائی کے مقابلے میں اپنی ماں کا مقدمہ ہارنے کی وجہ سے تڑپ رہاتھا۔ اس ماں کا مقدمہ، جس کے پاس پیتل کی ایک انگوٹھی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

یہ بڑھیا اپنے بڑے بیٹے حیزان کے ساتھ رہتی تھی۔ حیزان اپنی ماں کے ساتھ انتہائی حسن سلوک سے پیش آتا۔ حتی المقدور اس کی خدمت کرتا تھا۔ بوڑھی ماں بھی اس کے ساتھ خوش تھی۔ جب حیزان کی عمر زیادہ ہوگئی، ایک دن اس کا چھوٹا بھائی اس کے گھر آیا۔ وہ دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ اس نے بڑے بھائی کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ آج کے بعد ماں اس کے ساتھ رہے گی۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ شہر سے ماں کو لے جانے کے لیے ہی آیا ہے۔

یہ بات حیزان کے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔ وہ کہنے لگا: بھائی! اگرچہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور تم میرا بڑھاپا دیکھ کر یہ سمجھ رہے ہو کہ میں اپنی والدہ کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکوں گا، لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں آج بھی اپنی والدہ کی خدمت اسی طرح کرنے کے قابل ہوں جیسا کہ اس سے پہلے کرتا تھا۔ تمہیں میرے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ہرگز گوارا نہیں کرسکتا کہ میری ماں میری آنکھوں سے اوجھل رہے۔ میں جیتے جی ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو میں زندگی بھر بے قرار رہوں گا۔ اس لیے مجھ پر احسان کرو اور ماں کو اپنے ساتھ شہر لے جانے کی کوشش نہ کرو۔

چھوٹے بھائی نے جواباً عرض کیا: بھائی جان! آپ طویل عرصے سے ماں کی خدمت کررہے ہیں اور بلاشبہ آپ نے والدہ کی خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ جتنا ہوسکا آپ نے والدہ کی خدمت کی۔ اب آپ بوڑھے ہوچکے ہیں، ایسی صورت میں آپ خود اپنے بچوں کی خدمت کے محتاج ہیں، اس لیے آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ والدہ کو میرے ساتھ شہر جانے دیں۔ میں ابھی جوان ہوں، میرے بچے بھی دادی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ میری بیوی بھی ساس کی خدمت کرنا چاہتی ہے، اس لیے آپ ہمیں ماں کی خدمت کا موقع فراہم کریں۔

دونوں بھائیوں میں بحث ہوتی رہی۔ دونوں میں سے کوئی بھی اپنی ماں کو خود سے جدا کرنے پر راضی نہ تھا۔دونوں ہی ماں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے اصرار کررہے تھے۔ ہر چند حیزان بوڑھا ہوچکا تھا، مگر اسے ماں سے جدائی گوارا نہ تھی۔دونوں بھائیوں کے درمیان بحث بڑھتی دیکھ کر پڑوس کے لوگوں نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی۔ لیکن لوگوں کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ دونوں بھائیوں میں سے کوئی بھی ماں سے جدا رہنے پر تیار نہ تھا۔ دونوں اپنی اپنی دلیل سے ایک دوسرے کا مسکت جواب دے رہے تھے۔

جب یہ معاملہ حل نہ ہوسکا اور لوگوں کی مصالحانہ جدوجہد بھی اس مقدمے کو حل کرنے سے قاصر رہی تو آخرکار یہ مقدمہ ہائی کورٹ پہنچ گیا۔ مقدمہ دونوں بھائیوں کی طرف سے دائر ہوا۔

جج کے پاس یہ مقدمہ پہنچا تو اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے اس کیس کو ہر اعتبار سے جانچا، دیکھا، تولا اور پرکھا، اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کرے؟ پھر اس نے دونوں بھائیوں کو اپنے چیمبر میں بلایا اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ان میں سے کوئی ایک بھائی اپنی ماں کو دوسرے بھائی کے پاس رکھنے پر راضی ہوجائے۔ مگر جج کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔

دونوں بھائیوں میں سے کوئی بھی ماں کے فراق پر راضی نہ تھا۔ جج کو جب کسی طرح بھی بات بنتی نظر نہ آئی تو اس نے بوڑھی ماں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ جج کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس معاملے میں ماں کی رائے سے بھی آگاہ ہوجائے کہ آخر خود ماں کی کیا مرضی ہے؟ وہ اپنے بڑے بیٹے حیزان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا چھوٹے بیٹے کے ساتھ جانا چاہتی ہے؟

جج کے حکم کے مطابق دونوں بھائیوں نے اپنی والدہ کو ایک وہیل چیئر پر بٹھاکر عدالت میں پیش کیا۔ بڑھیا کا وزن کوئی بیس 20 کلو گرام تھا، کیونکہ وہ بہت بوڑھی ہوچکی تھی۔ اس کے جسم میں گوشت پوست کی بجائے ہڈیاں ہی ہڈیاں باقی رہ گئی تھیں۔ عدالت حاضرین سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ چونکہ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا مقدمہ تھا، اس لیے لوگ اس کا فیصلہ سننے کے لیے بے تاب تھے۔ عدالت میں دونوں بھائیوں نے مل کر ماں کو پیش کیا۔ جج کی ساری توجہ بوڑھی ماں کی طرف تھی۔اس نے خاتون سے مخاطب ہوکر پوچھا:

’’ محترمہ! دونوں بیٹے تمہاری خدمت کے لیے تمہیں اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں کی خواہش ہے کہ تمہاری خدمت کریں۔ ان میں سے کوئی بھی تم سے جدا ہونے کو تیار نہیں ۔ میں نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی ایک اپنی بات سے رجوع کرلے مگر یہ دونوں اپنی بات اور دلیل پر مصر ہیں۔ مجھے اس مقدمے کا فیصلہ کرنے میں بڑی دشواری پیش آرہی ہے۔ اب یہ فیصلہ میرے ہاتھ میں نہیں بلکہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ تم جو کہو گی میں اسی کی بنیاد پر فیصلہ کردوں گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ تم خود بتادو کہ ان دونوں بیٹوں میں سے کس کے پاس رہنا چاہتی ہو؟‘‘

سچ تو یہ ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ جج کے لیے جتنا دشوار تھا، اس سے کہیں زیادہ ماں کے لیے دُوبھر تھا۔ دونوں بیٹے اس کی آنکھوں کے تارے تھے۔ وہ ان دونوں ہی سے بے لوث محبت کرتی تھی اور ان دونوں ہی نے ماں کی خدمت میں بڑے خلوص کا ثبوت دیا تھا۔ ماں کو چپ لگ گئی۔ جج خاتون کے جواب کا شدت سے منتظر تھا۔خاتون نے چند لمحے بعد زبان کھولی اور کہنے لگی:

’’ جج صاحب! میں کیا فیصلہ سناؤں؟ آپ نے اپنے فیصلے کا انحصار میرے جواب پر رکھا ہے۔ بھلا میں کیا عندیہ ظاہر کروں؟ میں تو ان دونوں کی ماں ہوں۔ یہ دونوں ہی میرے بچے ہیں۔ میری ایک آنکھ میرے بڑے بیٹے حیزان کی طرف دیکھ رہی ہے اور دوسری آنکھ اس کے چھوٹے بھائی کی طرف۔ میں دوراہے پر حیران کھڑی ہوں۔ میرے لیے یہ فیصلہ مشکل ہے کہ میں کس راہ پر قدم بڑھاؤں؟

جج کے لیے اب یہ مقدمہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا۔ اب اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق جو مناسب سمجھے وہ فیصلہ سنادے۔ چنانچہ جج نے کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ سنایا:

’ حیزان نے ایک عرصے تک اپنی بوڑھی والدہ کی خدمت کی ہے اور اب وہ خود بھی بوڑھا ہوچلا ہے۔ اب وہ پہلے کی طرح چابکدستی سے اپنی ماں کی خدمت نہیں کرسکتا۔ اس کے مقابلے میں اس کا چھوٹا بھائی ابھی جوان ہے۔ اس کے پاس ماں کی خدمت کرنے کی صلاحیت بھی ہے، اس لیے عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ بوڑھی ماں اب اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہے۔ کیونکہ وہ اپنی والدہ کی بخیر وخوبی خدمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘

یہ فیصلہ سننا تھا کہ حیزان کی چیخیں نکل گئیں۔ اس کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ وہ بھری عدالت میں سسکیاں بھر کر رونے لگا۔ وہ اپنے اوپر افسوس کررہاتھا کہ آہ! آج میں بوڑھا ہوجانے کی وجہ سے اپنی ماں کی خدمت کرنے سے محروم کردیا گیا ہوں۔ عدالت نے میرے خلاف فیصلہ صادر کیا ہے۔ کاش! میں بوڑھا نہ ہوتا، تاکہ اپنی والدہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرکے اپنی خوشی مناتا۔‘‘

اس واقعے کو ذہن میں رکھیں اور اپنے گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو کتنی ہی مائیں کسم پرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتے نظر آئیں گی جن کے کئی کئی بیٹے ہیں لیکن کوئی ماں کو ساتھ رکھنے پر تیار نہیں ہوتا بعض بیویوں کی وجہ سے اور بعض بدنصیب اپنی بد فطرت کی وجہ سے ماں کی خدمت کے شرف سے محروم ہیں۔

No comments:

Post a Comment