Labels
- 2 Line Poetry
- 2 Lines Poetry
- 4 Line Poetry
- 4 Lines Poetry
- Aazam
- Abbas Khalish
- Abdul Hameed Addam
- Abdullah Kamal.
- Adeem Hashmi
- Ahmad Faraz
- Ahmad Kamal
- Altaf Hussain Hali
- Ameer Meenai
- Bashir Badar
- Bismil Saeedi
- Dylan Thomas
- English Poetey
- English Qouts
- Faiz Ahmad Faiz
- Faiz Anwar
- Ghulam Fareed
- Golden Words
- Hafeez Banaras
- Ibne Insha
- Iftikhar Raghib.
- Islamic Poetry
- Jafar Khan
- Jalal Aali
- Jaleel Mank Poori
- Jamil Uddin Aali
- Jaun Elia
- Jigar Murad Abadi
- Kahani
- Khalid Nadeem Shani
- Long Poetry
- Maleekh Abadi
- Mazakiya Shairi
- Meer Taqi Meer
- Mirza Ghalib
- Mohsin Naqvi
- Munir Niazi
- Murshid
- Mustafa Dilkash
- Muztat Khair Abadi
- Naats
- Nasir Kazmi
- Nazmi Sikandri Aabadi
- Poetry Videos
- Punjabi Poetry
- Punjabi Poetry Videos
- Pushto Poetry
- Pushto Poetry Videos
- Qateel Shifai
- Qateel Shifai.
- Rahat Andori
- Rahat Hassan
- Rahi Masoom Raza
- Riaz Haans
- Robert Frost.
- Rustam Naami.
- Saeed Ahsan
- Saghar Sidiqui
- Sahir Ludhyanvi
- Seemab Akbar Abadi
- Shahzad Qais
- Shaikh Ibrahim Zauq
- Shakeeb Jalali
- Shakeel Badayoni
- Shakeel Moeen
- Short Poetry
- Songs
- Sunehre Alfaz
- Thomas Hardy
- Urdu Poetry Videos
- Ustaad Qamar Jalalvi
- Waqiyaat
- Waris Shah
- Wasi Shah
Saturday, 30 March 2024
Ek Yahoodi Aur Nabi Pak Ka Waqiya,
Thursday, 1 February 2024
Qasai Aur Qaneez Ka Waqiya,
Friday, 8 February 2019
’’میں سید زادی ہوں
’’میں سید زادی ہوں ‘‘
اس دن جب گلی میں میں کھڑا تھا تو ایک لڑکا ایک گھر کے باہر باربار چکر لگا رہا تھا۔میں نے اس سے جا کے پوچھا بھائی کس کی تلاش ہے تو اس نے کہا کسی کی نہیں بس ایک دوست نے ادھر آنے کا وقت دیا وہ ابھی تلک آیا نہیں۔ خیر میں اس کی بات سن کے گھر چلا گیا اور کچھ لمحوں بعد اچانک سے نکلا تو میں نے دیکھا اسی گھر سے ایک لڑ کی سر جھکائے تیزی سے باہر آئی اور جلدی سے اس لڑکے کو ایک لفافہ دے کرگھر بھاگ گئی۔ لڑکا وہ لفافہ لے
کر بہت ہی مسکرایا اور اسے دل سے لگاتا ہوا وہاں سے چل دیا میں اپنی بری عادت کے مطابق تحقیق کرنے کے لیے اس کے پیچھے چل دیا وہ لڑکا ایک درخت کے نیچے جا کر رکا اور اس نے اس لفافہ کو کھولا جس کے اندر سے ایک صفحہ نکلا اس نے اس صفحہ کو کوئی تین سے چار بار چوما اور اپنی آنکھوں سے لگایا اور پڑھنے لگا میں دور سے اس کے چہرے کو اور حرکات کو دیکھ رہا تھا اور اپنی قیاس آرائیوں میں مصروف تھا اچانک سے دیکھا لڑکے نے آسمان کی طرف سر اٹھایا اور بے ہوش ہو کے گر پڑا۔میں بھاگتے ہوئے اس کے قریب گیا اور اس کے ہاتھ سے وہ ورق لے کر تجسس سے پڑھنے لگا۔ یہ ایک خط تھا جو اس لڑکی نے اپنے اس عاشق کو لکھا۔ السلام علیکم! اے وہ نوجوان جس نے ابھی اپنی ماں کی گود سے باہر قدم رکھا ہے اور
اس کی تربیت کرنے پر تھوک ڈالا ہےمیں مانتی ہوں تیری سوچ کے مطابق جس محبت کا تو دعویدار ہے وہ سچی اور پکی ہے اور تو اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وفا بھی کرے گا کیونکہ اس محبت کا آغاز نظر کے ملنے سے ہوا تھا اور انجام جسم کے ملنے پر ہوگا،کیونکہ میری ماں نے اپنے بیٹے عبدالرسول کو ایک دن کہا تھا بیٹا یہ نظر ابلیس کے تیروں میں سے ایک ہے اور جب یہ تیر چلتا ہے نا اس کی طاقت کبھی کبھی پورے پورے خاندان برباد کر دیتی ہے اور پھر جب اس کا بدلا مڑتا ہے تو لفظ عزت بھی سر جھکا کر انسانوں کی بستی سے نکل جاتا ہے۔ لہٰذا اس آنکھ کو صرف اپنے سوہنے نبیﷺ کے چہرے کو دیکھنے کے لیے منتظر رکھنا ورنہ قیامت کے دن اپنے ماں کو حضور ﷺکی بارگاہ میں شرمندہ نہ کرنا کہ
میں اس بات پر شرم کے مارے ڈوب مروں کہ میں نے تیری تربیت میں کمی چھوڑ دی تھی۔۔تو سن اے خود کو خوبصورت شہزادہ اور مجھے دنیا کی حور سمجھنے والے میں ایک سید زادی ہوں اور میرا تعلق اماں فاطمہ کے قبیلہ سے ہے جو قیامت کو تمام جنتی عورتوں کی سردار ہوں گی میں نے اپنے لیے دعا مانگی ہے کہ اے اللہمجھے جنت میں ان کی خادمہ بنانا تو تو خود فیصلہ کر اگر میں تیری محبت میں مبتلا ہو جاؤں تو خادمیت تو کیا مجھے جنت کے قریب بھی نہیں آنے دیا جائے گا۔رہا سوال تو نے جو مجھے کل شام باغ کے اس پیڑ کے نیچے ملنے کو بلایا ہے میں وہاں بھی آجاتی لیکن میں تم سے ایک وعدہ لوں کہ تو اپنی بہن گڈی کو بھی ساتھ لے کر آنا اور میں اپنے بھائی کو۔کیونکہ تیری نظر میں دنیا کی سب سے شریف عورت تیری گڈی بہن ہے اور میرے بھائی کی نظر میں دنیا کی سب سے شریف عورت میں ہوں اسطرح دونوں مردوں کی غلط فہمی دور ہو جائے گی اور
اس کے بعد جب گاؤں میں یہ خبر پھیلے گی تو کوئی بھائی اپنی بہن کو شریف نہیں سمجھے گا اس طرح آئندہ محبت کرنے والوں پر ہمارا احسان رہے گا کہ یا تو وہ اس گناہ سے ہماری وجہ سے دور رہیں گے یا انہیں ہر طرح کی آسانیا ں ہو جائیں گی رات کے تیسرے پہر کوئی بھائی اپنی بہن کو کسی باغ کے پیڑ کے نیچے ملنے سے نہیں روکے گا۔ پھر جب یہ گناہ اتنا عام ہو جائے گا تو لفظ غیرت کی تعریف بھی سب کو سمجھ آ جائے گی کہ اپنی بہن کی طرف کسی کی نگاہ نہ اٹھنے دینا غیرت نہیں بلکہ اپنی نظروں کو کسی کی بہن کی طرف بڑھنے سے روکنے کا نام غیرت ہے۔اے میرے خوبرو عاشق! تو جو محبت کر رہا ہے اس میں ہوس کی بْو کے سوا کچھ نہیں کیا تیری ماں نے تجھے وہ قرآن نہیں پڑھایا جس میں مومن کی حیا کا ذکرکیا تو مرد مومن اور حضور ﷺکا وہ امتی نہیں جس نے ایمان کے درجوں میں سے ایک درجہ حیا کا پایا ہو۔
میری باتیں پڑھ کر تجھے غصہ آیا ہو گا کہ میں نے تیری بہن کا ذکر کیوں کیا لیکن ایمان کی بات ہے ہر باحیا بھائی کی یہ کیفیت ہی ہوتی ہے مگر ایسا ہونا کہ اپنی بہن کے علاوہ کسی بھی عورت کو شریف نہ سمجھنا یہ گندی سوچ اور تربیت کا نتیجہ ہے۔کیا تو نے حضرت علی کا یہ فرمان نہیں پڑھا’’اپنی سوچ کو پانی کے قطروں کی طرح صاف رکھو کیونکہ جس طرح پانی کے قطروں سے دریا بنتا ہے اسی طرح سوچ سے ایمان بنتا ہے‘‘۔ کیا تیرے پاس جو ایمان ہے وہ دکھلاوے کا ہے ؟میں تجھے تبلیغ نہیں کر رہی بس اتنا بتا رہی ہوں کہ تیری بہن گڈی جو کہ میری دوست ہے اس کو بھی ایک تجھ جیسے بے ایمان اور راہ بھٹکے نوجوان نے خط لکھا اور اسی پیڑ کے نیچے بلایا لیکن عین اسی وقت جب کہ میں تجھے خط دے رہی ہوں تیری بہن نے بھی اسے خط دیا اور اسے اس کی محبت کا جواب دیا کہ وہ اس سے محبت کرے گی انہی باتوں اور شرائط کے ساتھ جو میں تجھے لکھ رہی ہوں اگر تجھے یہ سب میری باتیں منظور ہیں تو جا اور جا کہ
گڈی کو بھی ایسا کرنے کی اجازت دے دے جو تو مجھ سے چاہتا ہے کیوں کہ اس لڑکے کو بھی میں نے یہ ہی الفاظ گڈی سے لکھوا کے دئیے اور اگر میں ایسا نہ کرتی تو وہ لڑکا بھی راہ راست پر نہ آتا اور تیری بہن بھی گمراہ ہو چکی ہوتی۔۔اب آخری دو باتیں جن کا تو اپنے اللہ سے وعدہ کرنا۔تونے مجھ پر بری نظر ڈالی تو تیرے لیے اللہ نے یہ مکافات عمل والا سبق پیدا کیا۔اور میں نے تیری بہن کو بری راہ سے بچایا اس لیے میں بھی اللہ کی عطاکردہ ہمت سے تیری گمراہی اور اللہ کی ناراضگی والے جال سے بچ گئی ہوں۔اب اگر میرا تیری بہن پر احسان ہے تو پھر اس کو بھول کر اپنی گناہ کی ضد پر قائم رہنا چاہتا ہے تو اس دفعہ یاد رکھنا اللہ نے تجھے چار بہنیں اور ایک ماں دی ہے۔میں بھی اللہ سے دعا کروں گی کہ اللہ تجھے اور تیرے گھر والوں کو گمراہی اور ایسے گنا ہ سے بچائے اور تو بھی اللہ سے توبہ کر ۔ یہ میرا پہلا پیار کا خط ہے
جس میں میں اعتراف کرتی ہوں کہ میں اللہ سے اس کے حبیب ﷺسے پیار کرتی ہوں اگر جس چیز کی تو دعوت دیتا ہےیہ میرے نبی پاک ﷺ کی سیرت میں ہوتی تو میں اس پر عمل کرتی اور اگر ایسا عمل اور اس کی مثال اماں فاطمہ ؒ کی زندگی میں ملتی تو میں اس پر عمل کرتی اور اگر ان کی زندگی میں نہیں اور میری اور تیری والدہ کی زندگی میں ایسی ایک نہیں ہزار مثالیں بھی ہوتی تو بھی تو مجھے ہرگز اس دعوت کا قبول کرنے والا نہ پاتا، اللہ تیری بہنوں اور میری عزت کی حفاظت فرمائے۔ والسلام اللہ کی بندی تیری ماں،بہن،بیوی اور بیٹی کی عزت تیرے ہاتھ میں ہے اگر ابلیس پھر بھی تجھے ورغلانے میں کامیاب ہو گیا تو جان لے تو نے لوگوں کو اپنے گھر زنا کی دعوت دے دی اور دنیا کے بازار میں اچھا برا سب ملتا ہے تیری مرضی ہے برائی کے بدلے برائی لے یا نیکی کے بدلے نیکی لے کیوں کہ جیسا سکہ ویسا سودا۔
Saturday, 26 January 2019
*ايک شخص ابراھیم بن ادھمؒ سے بحث
*ايک شخص ابراھیم بن ادھمؒ سے بحث کر رھا تھا کہ برکت نام کی کوئی چیز نہیں ھوتی.*
*ابراہیم بن ادہمؒ نے کہا، "تم نے کتے اور بکریاں دیکھی ھیں؟ ".وہ شخص بولا، "ھاں ،".ابراھیم بن ادھمؒ بولے، "سب سے زیادہ بچے کون جنتا ھے کتے یا بکری..؟" وہ بولا، "کُتے"۔ ابراھیم بن ادھمؒ بولے، "تم کو بکریاں زیادہ نظر آتی ھیں یا کتے..؟ " وہ بولا، "بکریاں ". ابراھیم بن ادھمؒ بولے، "جبکہ بکریاں ذبح ھوتی ھیں، مگر پھر بھی کم نہیں ھوتیں، تو کیا برکت نہیں ھے ؟ اسی کا نام برکت ھے". پھر وہ شخص بولا، "ایسا کیوں ھے، کہ بکریوں میں برکت ھے اور کتے میں نہیں ؟". ابراھیم بن ادھمؒ بولے، "بکریاں رات ھوتے ھی فورا سو جاتی ھیں اور فجر سے پہلے اٹھ جاتی ھیں. یہ نزولِ رحمت کا وقت ھوتا ھے، لہذا ان میں برکت حاصل ھوتی ھے ،اور کتے رات بھر بھونکتے ھیں ، اور فجر کے قریب سو جاتے ھیں، لہذا رحمت و برکت سے محروم ھوتے ھیں"۔ پس غور و فکر کا مقام ھے، آج ھمارا بھی یہی حال ھے۔ ھم اپنی راتوں کو فضولیات میں گزارتے ھیں، اور وقتِ نزولِ رحمت، سو جاتے ھیں۔ اسی وجہ سے آج نہ ھی ھمارے مال میں اور نہ ھی ھماری اولاد میں اور نہ ھی کسی دوسری چیز میں برکت رھی ھے.*
*ذرا نہیں... پورا سوچیئے ......*
Ek Bodhe Ki Chori Ka Waqiya.
کہتے ہیں کہ ایک امریکی ریاست میں ایک بوڑھے شخص کو ایک روٹی چوری کرنے کے الزام میں گرفتار کرنے کے بعد عدالت میں پیش کیا گیا،
اس نے بجائے انکار کے اعتراف کیا کہ اُس نے چوری کی ہے اور جواز یہ دیا کہ وہ بھوکا تھا اور قریب تھا کہ وہ مر جاتا !
جج کہنے لگا '' تم اعتراف کر رہے ہو کہ تم چور ہو ،میں تمہیں دس ڈالر جرمانے کی سزا سُناتا ہوں اور میں جانتا ہوں کہ تمہارے پاس یہ رقم نہیں اسی لیے تو تم نے روٹی چوری کی ہے ،لہٰذا میں تمہاری طرف سے یہ جرمانہ اپنی جیب سے ادا کرتا ہوں ''مجمع پر سناٹا چھا جاتا ہے،
اور لوگ دیکھتے ہیں کہ جج اپنی جیب سے دس ڈالر نکالتا ہے اور اس بوڑھے شخص کی طرف سے یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرنے کا حکم دیتا ہےپھر جج کھڑا ہوتا ہے اور حاضرین کو مخاطب کر کےکہتا ہے
'' میں تمام حاضرین کو دس دس ڈالر جرمانے کی سزا سُناتا ہوں اس لیے کہ تم ایسے ملک میں رہتے ہو جہاں ایک غریب کو پیٹ بھرنے کے لیے روٹی چوری کرنا پڑی ''اُس مجلس میں 480 ڈالر اکھٹے ہوئے اور جج نے وہ رقم بوڑھے '' مجرم '' کو دے دی۔
کہتے ہیں کہ یہ قصہ حقیقت پر مبنی ہے ۔
ترقی یافتہ ممالک میں غریب لوگوں کی مملکت کی طرف سے کفالت اسی واقعے کی مرہون منت ہے
( سیدنا عمر رضی اللہ عنہ چودہ سو سال پہلے ہی یہ کام کر گئے کہ پیدا ہوتے ہی بچے کا وظیفہ جاری کرنے کے حکم دےدیا)
کبھی کبھی میں یہ سوچتا ہوں کہ ہمارے ١٠(دس) روپے ہمارے لئے اتنی اھمیت نہیں رکھتے جتنے کہ اس لاچار کے لئے رکھتے ہیں جو جانے کب سے بھوکا ہے۔۔۔
تبدیلی کے لیئے ہمیں خود کو بدلنا ہے۔۔
آئیے مل کر ہم سب بھی اپنی سوچ بدلیں۔۔
اپنے لئیے اور اپنی اس پاک دھرتی کے لئے۔۔۔
آئیں ہم بھی اپنے مُلک کے لوگوں کا سوچیں۔۔۔
کسی کی خوشی کا موجب بننا ہی سب سے بڑی خوشی ہے۔۔۔
Thursday, 24 January 2019
Badshah K 3 Sawalat
ایک مرتبہ ایک بادشاہ نے اپنے وزیز کو آدھی سلطنت دینے کو کہا ، لیکن ساتھ میں کچھ شرائط بھی عائد کیں- وزیر نے لالچ میں آکر شرائط جاننے کی درخواست کی بادشاہ نے شرائط 3 سوالوں کی صورت میں بتائیں۔
سوال نمبر 1: دنیا کی سب سے بڑی سچائی کیا ہے؟
سوال نمبر 2 : دنیا کا سب سے بڑا دھوکا کیا ہے؟
سوال نمبر 3 : دنیا کی سب سے میٹھی چیز کیا ہے؟
بادشاہ نے اپنے وزیر کو حکم دیا کہ وہ ان تین سوالوں کے جواب ایک ہفتہ کے اندر اندر بتائے بصورت دیگر سزائے موت سنائی جائے گی۔ وزیر نے سب پہلے دنیا کی بڑی سچائی جاننے کے لئے ملک کے تمام دانشوروں کو جمع کیا اور ان سے سوالات کے جواب مانگے ۔انہوں نے اپنی اپنی نیکیاں گنوائیں۔ لیکن کسی کی نیکی بڑی اور کسی کی چھوٹی نکلی لیکن سب سے بڑی سچائی کا پتہ نہ چل سکا۔ اس کے بعد وزیر نے دنیا کا سب سے بڑا دھوکا جاننے کے لئے کہا تو تمام دانشور اپنے دیئے ہوئے فریب کا تذکرہ کرتے ہوئے سوچنے لگے کہ کس نے کس کو سب سے بڑا دھوکا دیا لیکن وزیر اس سے بھی مطمئن نہیں ہوا اور سزائے موت کے خوف سے بھیس بدل کر وہاں سے فرار ہوگیا ۔چلتے چلتے رات ہوگئی ،اسی دوران اس کو ایک کسان نظر آیا جو کھرپی سے زمین کھود رہا تھا۔ کسان نے وزیر کو پہچان لیا، وزیر نے اس کو اپنی مشکل بتائی جسے سن کر کسان نے اس کے سوالوں کے جواب کچھ یوں دیئے
دنیا کی سب سے بڑی سچائی موت ہے ۔
دنیا کا سب سے بڑا دھوکا زندگی ہے۔
تیسرے سوال کا جواب بتانے سے پہلے کسان نے کہا کہ میں اگر تمہارے سارے سوالوں کےجواب بتادوں تو مجھے کیا ملے گا ،سلطنت تو تمہارے ہاتھ آئے گی۔ یہ سن کر وزیر نے اسے بیس گھوڑوں کی پیشکش کی اور اسے ہی اصطبل کا نگران بنانے کی بھی پیشکش کی۔ کسان نے یہ سن کر جواب دینے سے انکار کر دیا ۔وزیر نے سوچا کہ یہ تو آدھی سلطنت کا خواب دیکھ رہا ہے۔ وزیر جانے لگا تو کسان بولا کہ اگر بھاگ جاؤگے تو ساری زندگی بھاگتے رہو گے اور بادشاہ کے بندے تمہارا پیچھا کرتے رہیں گے اور اگر پلٹو گے تو جان سے مارے جاؤگے۔ یہ سن کر وزیر رک گیا اور کسان کو آدھی سلطنت کی پیشکش کی لیکن کسان نے اسے لینے سے بھی انکار کر دیا ۔اتنے میں ایک کتا آیا اور پیالے میں رکھے ہوئے دودھ میں سے آدھا پی کر چلا گیا۔ کسان نے وزیر سے کہا مجھے آدھی سلطنت نہیں چاہیے بس تم اس بچے ہوئے دودھ کو پی لوتو میں تمہارے تیسرے سوال کا جواب بتادوں گا۔ یہ سن کر وزیر تلملا گیا مگر اپنی موت اور جاسوسوں کے ڈر سے اس نے دودھ پی لیا۔ وزیر نے دودھ پی کر کسان کی طرف دیکھا اور اپنے سوال کا جواب مانگا تو کسان نے کہا کہ
دنیا کی سب سے میٹھی چیز انسان کی غرض ہے- جس کے لئے وہ ذلیل ترین کام بھی کر جاتا ہے
Wednesday, 16 November 2016
🌴بادشاہ کے انتخاب کاانوکھاطریقه ؟ 🌴
🌴بادشاہ کے انتخاب کاانوکھاطریقه ؟ 🌴
===========================
ﺍﯾﮏ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﺣﮑﻤﺮﺍﻥ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﻃﺮﯾﻘﻪ ﺑﮩﺖ ﺍﻧﻮﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﻭﻩ ﻫﺮ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺑﺪﻝ ﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺳﺎﻝ
ﮐﮯ ﺍٓﺧﺮﯼ ﺩﻥ ﺟﻮ ﺑﮭﯽﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯﻣﻠﮏ ﮐﯽ ﺣﺪﻭﺩ ﻣﯿﮟ
ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﻨﺘﺨﺐ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﺍﻭﺭ
ﻣﻮﺟﻮﺩﻩ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ’ ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ ‘ ﯾﻌﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﻪ
ﭼﮭﻮﮌ ﺍٓﺗﮯ ﺟﻬﺎﮞ ﺻﺮﻑ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﭘﯿﻨﮯ
ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﻪ ﺗﮭﺎ۔ ﺍﮔﺮ ﻭﻩ ﺳﺎﻧﭗ، ﺑﭽﮭﻮﻭﮞ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﻧﻪ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎ ﻟﯿﺘﺎ ﺗﻮ ﺑﮭﻮﮎ
ﭘﯿﺎﺱ ﺳﮯ ﻣﺮ ﺟﺎﺗﺎ۔ ﮐﺘﻨﮯ ﻫﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺍﯾﺴﮯ ﻫﯽ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ
ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﯽ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ " ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ " ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﺮ ﻣﺮ
ﮐﮭﭗ ﮔﺌﮯ۔
ﺍﺱ ﺩﻓﻌﻪ ﺷﻬﺮ ﻣﯿﮟ ﺩﺍﺧﻞ ﻫﻮﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﺴﯽ ﺩﻭﺭ
ﺩﺭﺍﺯ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﺎ ﻟﮓ ﺭﻫﺎ ﺗﮭﺎ ﺳﺐ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻧﮯ ﺁﮔﮯ ﺑﮍﮪ
ﮐﺮ ﺍﺳﮯ ﻣﺒﺎﺭﮎ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﻪ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ
ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﮯ ﺑﮍﮮ ﺍﻋﺰﺍﺯ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ
ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ، ﻭﻩ ﺣﯿﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﻫﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺑﮩﺖ ﺧﻮﺵ
ﺑﮭﯽ۔ ﺗﺨﺖ ﭘﺮ ﺑﯿﭩﮭﺘﮯ ﻫﯿﮟ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ ﮐﻪ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ
ﭘﮩﻼ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﮩﺎﮞ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺍﺱ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ
ﻗﺎﻧﻮﻥ
ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﻪ ﻫﺮ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ﺳﺎﻝ ﺑﻌﺪ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﯾﺎ
ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ ﺍﻭﺭ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﭼﻦ ﻟﯿﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﻫﮯ ﯾﻪ ﺳﻨﺘﮯ ﻫﯽ
ﻭﻩ ﺍﯾﮏ ﺩﻓﻌﻪ ﺗﻮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﻫﻮﺍ ﻟﯿﮑﻦ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﯽ
ﻋﻘﻞ ﮐﻮ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻪ ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﺟﮕﻪ ﻟﮯ
ﮐﺮ ﺟﺎﺅ ﺟﮩﺎﮞ ﺗﻢ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺁﺗﮯ ﻫﻮ۔ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ
ﻧﮯ ﺳﭙﺎﻫﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺳﻼﻣﺖ ﮐﻮ ﻭﻩ
ﺟﮕﻪ ﺩﮐﮭﺎﻧﮯ ﺟﻨﮕﻞ ﻣﯿﮟ ﻟﮯ ﮔﺌﮯ، ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻧﮯ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ
ﺍﺱ ﺟﮕﻪ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﻩ ﻟﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﺍﭘﺲ ﺁ ﮔﯿﺎ۔
ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺳﺐ ﺳﮯ ﭘﮩﻼ ﺣﮑﻢ ﯾﻪ ﺩﯾﺎ ﮐﻪ ﻣﺤﻞ ﺳﮯ
’ ﻋﻼﻗﻪﻏﯿﺮ ‘ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﺳﺮﺳﺒﺰ ﻭ ﺷﺎﺩﺍﺏ ﺭﺍﺳﺘﻪ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺟﮕﻪ ﮐﮯ ﺑﯿﭽﻮﮞ ﺑﯿﺞ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺭﻫﺎﺋﺶ ﺗﻌﻤﯿﺮ
ﮐﯽ ﺟﺎﺋﮯ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻫﺮ ﻗﺴﻢ ﮐﯽ ﺳﻬﻮﻟﺖ ﻫﻮ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ
ﮐﮯ ﺍﺭﺩﮔﺮﺩ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﺑﺎﻍ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺟﺎﺋﯿﮟ۔ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﮯ
ﺣﮑﻢ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﻫﻮﺍ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺮﻭﻉ ﻫﻮﮔﺌﯽ، ﮐﭽﮫ ﻫﯽ
ﻋﺮﺻﻪ ﻣﯿﮟ ﺳﮍﮎ ﺍﻭﺭ ﻣﺤﻞ ﻭﻏﯿﺮﻩ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺗﯿﺎﺭ ﻫﻮ ﮔﺌﮯ۔
ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮐﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﻫﻮﺗﮯ ﻫﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻧﮯ ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﺳﮯ
ﮐﮩﺎ ﮐﻪ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺳﻢ ﭘﻮﺭﯼ ﮐﺮﻭ ﺍﻭﺭ ﻣﺠﮭﮯ ﻭﻫﺎﮞ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺅ
ﺟﻬﺎﮞ ﻣﺠﮫ ﺳﮯﭘﮩﻠﮯ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﻮﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﮯ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ۔
ﺩﺭﺑﺎﺭﯾﻮﮞ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﻪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﺳﻼﻣﺖ ﺍﺱ ﺳﺎﻝ ﺳﮯ ﯾﻪ
ﺭﺳﻢ ﺧﺘﻢ ﻫﻮ ﮔﺌﯽ ﮐﯿﻮﻧﮑﻪ ﻫﻤﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ
ﻣﻞ ﮔﯿﺎ ﻫﮯ، ﻭﻫﺎﮞ ﺗﻮ ﻫﻢ ﺍﻥ ﺑﮯﻭﻗﻮﻑ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﻮﮞ ﮐﻮ
ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺁﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﻝ ﮐﯽ ﺑﺎﺩﺷﺎﻫﯽ ﮐﮯ ﻣﺰﮮ
ﻣﯿﮟ ﺑﺎﻗﯽ
ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﺗﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﯿﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﻧﺘﻈﺎﻡ ﻧﻪ
ﮐﺮﺗﮯ، ﻟﯿﮑﻦ ﺁﭖ ﻧﮯ ﻋﻘﻠﻤﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﻫﺮﻩ ﮐﯿﺎ ﮐﻪ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ
ﻭﻗﺖ ﮐﺎ ﺧﯿﺎﻝ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﺪﻩ ﺑﻨﺪﻭﺑﺴﺖ ﻓﺮﻣﺎ ﻟﯿﺎ۔ ﻫﻤﯿﮟ
ﺍﯾﺴﮯ ﻫﯽ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﮐﯽﺿﺮﻭﺭﺕ ﺗﮭﯽ ﺍﺏ ﺁﭖ ﺁﺭﺍﻡ
ﺳﮯ ﺳﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻫﻢ ﭘﺮ ﺣﮑﻮﻣﺖ ﮐﺮﯾﮟ۔
*
ﺍﺱ ﺍﻧﻮﮐﮭﮯ ﻣﻠﮏ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ’ﺩﻧﯿﺎ ‘ ﻫﮯ؛ ﻭﻩ ﻧﯿﺎ ﺑﺎﺩﺷﺎﻩ ﻣﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺍٓﭖ ﻫﯿﮟ-
ﺍﻭﺭ " ﻋﻼﻗﻪ ﻏﯿﺮ " ، ﻫﻤﺎﺭﯼ ﻗﺒﺮ ﻫﮯ۔
ﺍﺏ ﺁﭖ ﺧﻮﺩ ﻓﯿﺼﻠﻪ ﮐﺮ ﻟﯿﺠﯿﮯ ﮐﻪ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﺑﻌﺪ ﻫﻤﯿﮟ
ﺑﮭﯽ ﯾﻪ ﺩﻧﯿﺎ ﻭﺍﻟﮯ ﺍﯾﮏ ﺍﯾﺴﯽ ﺟﮕﻪ ﭼﮭﻮﮌ ﺁﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ
ﻫﻢ ﻧﮯ ﻋﻘﻞ ﻣﻨﺪﯼ ﮐﺎ ﻣﻈﺎﻫﺮﻩ ﮐﺮﺗﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﻭﻫﺎﮞ ﺍﭘﻨﺎ
ﻣﺤﻞ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﻏﺎﺕ ﺗﯿﺎﺭ ﮐﺮﻟﯿﮯ ﻫﯿﮟ ﯾﺎ ﺑﮯ ﻭﻗﻮﻑ ﺑﻦ ﮐﺮ
ﺍﺳﯽ ﭼﻨﺪ ﺭﻭﺯﻩ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﻣﺰﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻟﮕﮯ ﻫﻮﺋﮯ ﻫﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺩﻧﯿﺎﻭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻣﺨﺼﻮﺹ ﻣﺪﺕ ﺷﺎﻫﯽ
ﺍﻧﺪﺍﺯ ﺳﮯﮔﺰﺍﺭ ﮐﺮ ﺿﺎﺋﻊ ﮐﺮ ﺭﻫﮯ ﻫﯿﮟ
ﺫﺭﺍ ﺳﻮﭼﺌﮯ ﮐﻪ ﺁﺝ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﺑﮭﯽ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ
ﺑﮩﺖ ﮐﭽﮧ ﮨﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﯾﮏ ﻭﻗﺖ ﺍﯾﺴﺎ ﺁﮮ ﮔﺎ ﮐﮯ ﭘﮭﺮ
ﭘﭽﮭﺘﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻣﮪﻠﺖ ﺑﮭﯽ ﻧﻬﯿﮟ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﮬﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ
ﺍﭘﻨﯽ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﯽ ﺗﯿﺎﺭﯼ ﺧﻮﺏ ﺳﭽﯽ ﻓﮑﺮ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮨﻤﺖ
ﺍﻭﺭ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﮮ ﺁﻣﯿن''''''''''
━═───────────═━─
ماں اور قانون دوراہے پر..
ماں اور قانون دوراہے پر..
🖊🖊🖊
ایک بوڑھے بیٹے کا حیران کن مقدمہ.🖋.........
عبدالمالک مجاہد سعودی عرب
سعودی عرب کے شہر بریدہ کے لوگ اور عدالت دونوں کے لیے فیصلہ دشوار ہی نہیں دو بھر ہوگیا تھا.
سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض سے ایک روزنامہ نکلتا ہے۔
شہر ریاض ہی کی نسبت سے اس کا نام روزنامہ ’’ریاض‘‘ ہے۔ اخبار کے مطابق دو بھائیوں کے درمیان جھگڑے کا مقدمہ اس قدر سنگین صورت اختیار کرگیا کہ اس کا فیصلہ پنچایت میں نہیں ہوسکا، بلکہ مقدمہ ہائی کورٹ تک پہنچ گیا۔ دراصل یہ مقدمہ بالکل نرالی نوعیت کا تھا، اس لیے بہت سے عربی ا خبارات نے اسے نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع کیا۔ ہم روزنامہ ’’ الریاض‘‘ کے حوالے سے واقعے کا خلاصہ قارئین کرام کی خدمت میں پیش کررہے ہیں۔
اس کا نام حیزان تھا۔ سعودی عرب کے معروف شہر ’’ بریدہ‘‘ سے 90 کلو میٹر کے فاصلے پر ’’ اَسیاح‘‘ نامی ایک بستی ہے۔ حیزان نامی بوڑھا اسی بستی کا رہنے والا تھا۔ جب مقدمہ بائی کورٹ پہنچا تو وہ بوڑھا شخص لوگوں سے کھچاکھچ بھری ہوئی عدالت میں اس قدر رویا کہ اس کے آنسوئوں سے اس کی داڑھی بھیگ گئی، آخر کیوں؟
اس بوڑھے نے بھری عدالت میں لوگوں کے سامنے آنسو کیوں بہائے؟ کیا اس لیے کہ اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ ناروا سلوک کیاتھا؟ کیا اس لیے کہ زمین کے کسی مقدمے میں اس کی ہار ہونے والی تھی؟ یا اس لیے کہ اس کی بیوی نے اس عمر میں اس پر خلع کا مقدمہ دائر کردیا تھا؟
جی نہیں، ان میں سے کوئی بھی وجہ نہیں تھی۔ دراصل وہ بھائی کے مقابلے میں اپنی ماں کا مقدمہ ہارنے کی وجہ سے تڑپ رہاتھا۔ اس ماں کا مقدمہ، جس کے پاس پیتل کی ایک انگوٹھی کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
یہ بڑھیا اپنے بڑے بیٹے حیزان کے ساتھ رہتی تھی۔ حیزان اپنی ماں کے ساتھ انتہائی حسن سلوک سے پیش آتا۔ حتی المقدور اس کی خدمت کرتا تھا۔ بوڑھی ماں بھی اس کے ساتھ خوش تھی۔ جب حیزان کی عمر زیادہ ہوگئی، ایک دن اس کا چھوٹا بھائی اس کے گھر آیا۔ وہ دوسرے شہر میں رہتا تھا۔ اس نے بڑے بھائی کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ آج کے بعد ماں اس کے ساتھ رہے گی۔ اس نے اعلان کیا کہ وہ شہر سے ماں کو لے جانے کے لیے ہی آیا ہے۔
یہ بات حیزان کے لیے بہت تکلیف دہ تھی۔ وہ کہنے لگا: بھائی! اگرچہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور تم میرا بڑھاپا دیکھ کر یہ سمجھ رہے ہو کہ میں اپنی والدہ کی اچھی طرح خدمت نہیں کرسکوں گا، لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں آج بھی اپنی والدہ کی خدمت اسی طرح کرنے کے قابل ہوں جیسا کہ اس سے پہلے کرتا تھا۔ تمہیں میرے بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں ہرگز گوارا نہیں کرسکتا کہ میری ماں میری آنکھوں سے اوجھل رہے۔ میں جیتے جی ایسا ہرگز نہیں ہونے دوں گا۔ اگر تم نے ایسا کیا تو میں زندگی بھر بے قرار رہوں گا۔ اس لیے مجھ پر احسان کرو اور ماں کو اپنے ساتھ شہر لے جانے کی کوشش نہ کرو۔
چھوٹے بھائی نے جواباً عرض کیا: بھائی جان! آپ طویل عرصے سے ماں کی خدمت کررہے ہیں اور بلاشبہ آپ نے والدہ کی خدمت میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ جتنا ہوسکا آپ نے والدہ کی خدمت کی۔ اب آپ بوڑھے ہوچکے ہیں، ایسی صورت میں آپ خود اپنے بچوں کی خدمت کے محتاج ہیں، اس لیے آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ والدہ کو میرے ساتھ شہر جانے دیں۔ میں ابھی جوان ہوں، میرے بچے بھی دادی کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں۔ میری بیوی بھی ساس کی خدمت کرنا چاہتی ہے، اس لیے آپ ہمیں ماں کی خدمت کا موقع فراہم کریں۔
دونوں بھائیوں میں بحث ہوتی رہی۔ دونوں میں سے کوئی بھی اپنی ماں کو خود سے جدا کرنے پر راضی نہ تھا۔دونوں ہی ماں کو اپنے ساتھ رکھنے کے لیے اصرار کررہے تھے۔ ہر چند حیزان بوڑھا ہوچکا تھا، مگر اسے ماں سے جدائی گوارا نہ تھی۔دونوں بھائیوں کے درمیان بحث بڑھتی دیکھ کر پڑوس کے لوگوں نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی۔ لیکن لوگوں کو یہ دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ دونوں بھائیوں میں سے کوئی بھی ماں سے جدا رہنے پر تیار نہ تھا۔ دونوں اپنی اپنی دلیل سے ایک دوسرے کا مسکت جواب دے رہے تھے۔
جب یہ معاملہ حل نہ ہوسکا اور لوگوں کی مصالحانہ جدوجہد بھی اس مقدمے کو حل کرنے سے قاصر رہی تو آخرکار یہ مقدمہ ہائی کورٹ پہنچ گیا۔ مقدمہ دونوں بھائیوں کی طرف سے دائر ہوا۔
جج کے پاس یہ مقدمہ پہنچا تو اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اس نے اس کیس کو ہر اعتبار سے جانچا، دیکھا، تولا اور پرکھا، اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کرے؟ پھر اس نے دونوں بھائیوں کو اپنے چیمبر میں بلایا اور یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ ان میں سے کوئی ایک بھائی اپنی ماں کو دوسرے بھائی کے پاس رکھنے پر راضی ہوجائے۔ مگر جج کی ساری کوششیں ناکام ثابت ہوئیں۔
دونوں بھائیوں میں سے کوئی بھی ماں کے فراق پر راضی نہ تھا۔ جج کو جب کسی طرح بھی بات بنتی نظر نہ آئی تو اس نے بوڑھی ماں کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔ جج کا مقصد یہ تھا کہ وہ اس معاملے میں ماں کی رائے سے بھی آگاہ ہوجائے کہ آخر خود ماں کی کیا مرضی ہے؟ وہ اپنے بڑے بیٹے حیزان کے ساتھ رہنا چاہتی ہے یا چھوٹے بیٹے کے ساتھ جانا چاہتی ہے؟
جج کے حکم کے مطابق دونوں بھائیوں نے اپنی والدہ کو ایک وہیل چیئر پر بٹھاکر عدالت میں پیش کیا۔ بڑھیا کا وزن کوئی بیس 20 کلو گرام تھا، کیونکہ وہ بہت بوڑھی ہوچکی تھی۔ اس کے جسم میں گوشت پوست کی بجائے ہڈیاں ہی ہڈیاں باقی رہ گئی تھیں۔ عدالت حاضرین سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ چونکہ یہ اپنی نوعیت کا انوکھا مقدمہ تھا، اس لیے لوگ اس کا فیصلہ سننے کے لیے بے تاب تھے۔ عدالت میں دونوں بھائیوں نے مل کر ماں کو پیش کیا۔ جج کی ساری توجہ بوڑھی ماں کی طرف تھی۔اس نے خاتون سے مخاطب ہوکر پوچھا:
’’ محترمہ! دونوں بیٹے تمہاری خدمت کے لیے تمہیں اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ ان دونوں کی خواہش ہے کہ تمہاری خدمت کریں۔ ان میں سے کوئی بھی تم سے جدا ہونے کو تیار نہیں ۔ میں نے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ کوئی ایک اپنی بات سے رجوع کرلے مگر یہ دونوں اپنی بات اور دلیل پر مصر ہیں۔ مجھے اس مقدمے کا فیصلہ کرنے میں بڑی دشواری پیش آرہی ہے۔ اب یہ فیصلہ میرے ہاتھ میں نہیں بلکہ تمہارے ہاتھ میں ہے۔ تم جو کہو گی میں اسی کی بنیاد پر فیصلہ کردوں گا۔ میرا سوال یہ ہے کہ تم خود بتادو کہ ان دونوں بیٹوں میں سے کس کے پاس رہنا چاہتی ہو؟‘‘
سچ تو یہ ہے کہ اس مقدمے کا فیصلہ جج کے لیے جتنا دشوار تھا، اس سے کہیں زیادہ ماں کے لیے دُوبھر تھا۔ دونوں بیٹے اس کی آنکھوں کے تارے تھے۔ وہ ان دونوں ہی سے بے لوث محبت کرتی تھی اور ان دونوں ہی نے ماں کی خدمت میں بڑے خلوص کا ثبوت دیا تھا۔ ماں کو چپ لگ گئی۔ جج خاتون کے جواب کا شدت سے منتظر تھا۔خاتون نے چند لمحے بعد زبان کھولی اور کہنے لگی:
’’ جج صاحب! میں کیا فیصلہ سناؤں؟ آپ نے اپنے فیصلے کا انحصار میرے جواب پر رکھا ہے۔ بھلا میں کیا عندیہ ظاہر کروں؟ میں تو ان دونوں کی ماں ہوں۔ یہ دونوں ہی میرے بچے ہیں۔ میری ایک آنکھ میرے بڑے بیٹے حیزان کی طرف دیکھ رہی ہے اور دوسری آنکھ اس کے چھوٹے بھائی کی طرف۔ میں دوراہے پر حیران کھڑی ہوں۔ میرے لیے یہ فیصلہ مشکل ہے کہ میں کس راہ پر قدم بڑھاؤں؟
جج کے لیے اب یہ مقدمہ اور بھی پیچیدہ ہوگیا۔ اب اس کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ اپنی صوابدید کے مطابق جو مناسب سمجھے وہ فیصلہ سنادے۔ چنانچہ جج نے کافی سوچ بچار کے بعد یہ فیصلہ سنایا:
’ حیزان نے ایک عرصے تک اپنی بوڑھی والدہ کی خدمت کی ہے اور اب وہ خود بھی بوڑھا ہوچلا ہے۔ اب وہ پہلے کی طرح چابکدستی سے اپنی ماں کی خدمت نہیں کرسکتا۔ اس کے مقابلے میں اس کا چھوٹا بھائی ابھی جوان ہے۔ اس کے پاس ماں کی خدمت کرنے کی صلاحیت بھی ہے، اس لیے عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ بوڑھی ماں اب اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ رہے۔ کیونکہ وہ اپنی والدہ کی بخیر وخوبی خدمت کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔‘‘
یہ فیصلہ سننا تھا کہ حیزان کی چیخیں نکل گئیں۔ اس کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں۔ وہ بھری عدالت میں سسکیاں بھر کر رونے لگا۔ وہ اپنے اوپر افسوس کررہاتھا کہ آہ! آج میں بوڑھا ہوجانے کی وجہ سے اپنی ماں کی خدمت کرنے سے محروم کردیا گیا ہوں۔ عدالت نے میرے خلاف فیصلہ صادر کیا ہے۔ کاش! میں بوڑھا نہ ہوتا، تاکہ اپنی والدہ کی زیادہ سے زیادہ خدمت کرکے اپنی خوشی مناتا۔‘‘
اس واقعے کو ذہن میں رکھیں اور اپنے گرد نظر دوڑائیں تو آپ کو کتنی ہی مائیں کسم پرسی کی حالت میں زندگی بسر کرتے نظر آئیں گی جن کے کئی کئی بیٹے ہیں لیکن کوئی ماں کو ساتھ رکھنے پر تیار نہیں ہوتا بعض بیویوں کی وجہ سے اور بعض بدنصیب اپنی بد فطرت کی وجہ سے ماں کی خدمت کے شرف سے محروم ہیں۔
-
سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے شکوۂ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے کتنا آسا...
-
Type By, *.__SAJJAD__.* Haqeeqat Jaan Kar Aisi Himakat Kon Karta Hai, Bhala Be_Faiz Logon Se Mohabbat Kon Karta Hai, Batao Jis Tijarat Main ...
-
عشق میں غیرت جذبات نے رونے نہ دیا ورنہ کیا بات تھی کس بات نے رونے نہ دیا آپ کہتے تھے کہ رونے سے نہ بدلیں گے نصیب عمر بھر آپ کی اس بات نے...