حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کبھی دریا میں سمندر نہیں گرتا
سمجھو وہاں پھلدار درخت کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جس میں کوئی پتھر نہیں گرتا
حیراں ہے کئی روز سے ٹھہرا ہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا
اس بندہ خودار پہ نبیوں کا ہے سایہ
جو بھوک میں بھی لقمہ تر پر نہیں گرتا
قائم ہے قتیل اب یہ میرے سر کے ستوں پر
بھونچال بھی آئے تو میرا گھر نہیں گرتا
شاعر۔۔۔۔قتیل شفائی