ذرہ جو کوئی مہر کے مصداق ہو گیا
سب شہر اس کی دھوپ کا مشتاق ہو گیا
قصر خیال خواب مکاں آستان دل
رکھی جہاں بھی شمع وہی طاق ہو گیا
ان خواہشوں کے ناگ نے کیا ڈس لیا مجھے
مہلک تھا جو وہ زہر بھی تریاق ہو گیا
وابستہ ہو گئے ہیں اب اس کی ادا سے ہم
ہم پر بھی اس کے حکم کا اطلاق ہو گیا
راحت پس مراد ادب گفتگو رہی
پھر یوں ہوا کہ وہ بھی بد اخلاق ہو گیا
راحت حسن