Showing posts with label Mustafa Dilkash. Show all posts
Showing posts with label Mustafa Dilkash. Show all posts

Sunday, 3 February 2019

ارے یہ روپ یہ سنگھار میری جان لوگے کیا میں سر تا پا مسلماں ہوں مرا ایمان لوگے کیا


ارے یہ روپ یہ سنگھار میری جان لوگے کیا
میں سر تا پا مسلماں ہوں مرا ایمان لوگے کیا

دکھا وے پر نہیں جانا حقیقت پر نظر ڈالو
اندھیری رات میں جگنو کو سورج مان لوگے کیا 

محبت کا بہت دم بھرتے ہو میرے تعلق سے 
کسی بھی حال میں آؤں مجھے پہچان لوگے کیا 

یہ غیرت کے طمانچے روح پر کیا جھیل پاؤ گے
بتاؤ تم کسی کم ظرف کا احسا ن لو گے  کیا 

یہ مانا میں تمہارے قد سے نیچا ہی سہی  لیکن 
ارے دلکش کو تم کیا اتنا بھی آسان لو گے کیا 

مصطفیٰ دلکش مہاراشٹر الہند

خدا کا ذکر بھی لازم ہے آدمی کے لئے

خدا کا ذکر بھی لازم ہے آدمی کے لئے
میاں سنو یہ جوانی ہے بندگی کے لئے 

شریف شخص کو کیسے الگ کروں خود سے
جواز چاہئے کوئی تو دشمنی کے لئے 

نظر نظر سے ہر اک بات کر رہے ہیں اب
دلوں کا ربط ضروری ہے عاشقی کے لئے

ہمارے شعروں میں یوں روشنی نہیں آ ئی
بہت جلایا ہے دل ہم نے روشنی کے لئے 

مجھے زمانے کی رنگینیوں سے کیا لینا 
تضمین ــ  نظر حضور کی کافی ہے زندگی کے لئے 

مشینی دور میں مشکل سے ملتی ہے فرصت 
کلیجہ چاہئے اس یگ میں شاعری کے لئے 

یہ آفتاب کبھی جن سے بھیک لیتا تھا 
ترس رہے ہیں اے دلکش وہ روشنی کے لئے 

مصطفیٰ دلکش

گلے لگ جا مرے اب دوریاں اچھی نہیں لگتیں مری جاں مجھ کو یہ تنہائیاں اچھی نہیں لگتیں

گلے لگ جا مرے اب دوریاں اچھی نہیں لگتیں 
مری جاں مجھ کو یہ تنہائیاں اچھی نہیں لگتیں 

مجھے ڈستی ہیں ناگن کی طرح پل پل تری یادیں 
ترے بن اب مجھے پروائیاں اچھی نہیں لگتیں 

جسے دیکھو وہ دشمن ہے محبت کا یہاں جاناں 
کہیں چل اور اب یہ بستیاں اچھی نہیں لگتیں 

ابھی بھی گشت کرتا ہے خیالوں میں ترا آنچل
مجھے یہ رنگ برنگی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں

ابھی بھی ہے مرے شانے پہ زلفیں یار کی خوشبو
ہوا سن لے تری شرمستیاں اچھی نہیں لگتیں

یقیں کرنا مری اے گل بدن تیری قسم مجھ کو 
مجھے اب پھولوں کی رعنائیاں اچھی نہیں لگتیں 

ابھی بھی ہے نگاہوں میں مرے محبوب کا چہرہ 
شفق کے گال پر اب سرخیاں اچھی نہیں لگتیں 

محبت بیٹیوں سے تھی مرے سرکار کو 
میں کیسے کہہ دوں مجھ کو بیٹیاں اچھی نہیں لگتیں

مصطفیٰ دلکش  مہاراشٹر الہند

Tuesday, 29 January 2019

امیرو میں رہو تم حسینو میں رہو تم

غزل

امیرو میں رہو تم حسینو میں رہو تم
کبھی اک پل سہی بس یتیموں میں رہو تم

رقیبوں میں رہو تم حبیبوں میں رہو تم 
مگر کچھ پل اےیارا حریفوں میں رہو تم

سکونِ دل ملے گا تمھیں سن لو مری اب
امیروں میں نہیں تم  فقیروں میں رہو تم

طلب تجھ کو اگر ہے میاں علم و ہنر کی
سخنداں میں رہو تم خطیبوں میں رہو تم

یہ سورج دیر تک کب بلند ی  پر   رکا   ہے
جو کہتا ہوں سنو تم غریبوں میں رہو تم

ملاہے درس مجھ کو نبی‌ سے میرے سن لو 
یتیموں میں ر ہو  تم اسیروں میں رہو  تم

یقیں رب پر نہیں ہے پریشاں اس لئے ہو  
کہاکس نے یہاں کے یہ پیروں میں رہو تم

مصطفی دلکش