غزل
امیرو میں رہو تم حسینو میں رہو تم
کبھی اک پل سہی بس یتیموں میں رہو تم
رقیبوں میں رہو تم حبیبوں میں رہو تم
مگر کچھ پل اےیارا حریفوں میں رہو تم
سکونِ دل ملے گا تمھیں سن لو مری اب
امیروں میں نہیں تم فقیروں میں رہو تم
طلب تجھ کو اگر ہے میاں علم و ہنر کی
سخنداں میں رہو تم خطیبوں میں رہو تم
یہ سورج دیر تک کب بلند ی پر رکا ہے
جو کہتا ہوں سنو تم غریبوں میں رہو تم
ملاہے درس مجھ کو نبی سے میرے سن لو
یتیموں میں ر ہو تم اسیروں میں رہو تم
یقیں رب پر نہیں ہے پریشاں اس لئے ہو
کہاکس نے یہاں کے یہ پیروں میں رہو تم
مصطفی دلکش
No comments:
Post a Comment