کچھ تو کم ہو یہ گھٹن ' شور و صدا آنے دے
رُخ پہ مت بیٹھ ' ذرا تازہ ہوا آنے دے
خواب میں سارے ہی گُل بوٹے کھلائے اس سال
آگے پت جھڑ ہے وہی ' سال نیا آنے دے
جَوالا بڑھتی ہی رہی اور بدن کی اُس کے
ایسی رُت میں اُسے اب کون بھلا آنے دے
کبھی تعمیر کیا تھا کوئی پیکر جس سے
اب مرے سامنے وہ حرفِ وفا آنے دے
دیکھنا آتے ہیں پھر کتنے حسینوں کے خطوط
کچھ رسالوں میں مرا نام پتا آنے دے
*عبداللّٰہ کمال*
(۱۹۷۶ء)
ماخذ:-میں ص ۶۵/۶۶