کاش چہروں پہ لگے خول اُتارے جاتے
کتنے معصُوم تو بےجُرم نہ مارے جاتے
ہم نے بےپرد کیے کتنے بھیانک چہرے
کیوں نہ ہم شہر میں غدار پُکارے جاتے
مر گئے ہیں تو یہ اچھا ہُوا ورنہ ہم بھی
کسی چوراہے پہ بےرحمی سے مارے جاتے
ہم نے ہر دور کے فرعون کو للکارا ہے
کیوں نہ ہر ظُلم کی سُولی سے گُزارے جاتے
کُند ذہنوں میں جو بھرتے رہے نفرت کی آگ
اُن کی خواہش تھی بہت دُور شرارے جاتے
مار ڈالے گا زمانہ یہی کہہ کر مجھ کو
زِندہ رہ جاتا تو ایمان سے سارے جاتے
ہم نے آصفؔ نہیں سیکھا تھا خُوشامد کرنا
ورنہ اوروں کی طرح بھاگ سنوارے جاتے
No comments:
Post a Comment