Thursday, 19 January 2017

اس طرح چمکا کہ تارا ہوگیا

اس طرح چمکا کہ تارا ہوگیا
وہ اکیلا ہر کسی کا ہوگیا

آنکھ خود خوابوں کی منکر ہوگئی
عشق کا فرمان جھوٹا ہوگیا

راستے تکلیف دینے لگ گئے
پتھروں کا شہر شیشہ ہوگیا

ایک آنسو روکنے کی ضد میں دوست
اتنا رویا ہوں کہ اندھا ہوگیا

اس کو بن دیکھے میں اس پر مر مٹا
بے گناہی میں بھی پرچہ ہوگیا

دھوپ سے تکلیف پہنچی تھی جناب
ماں کا آنچل پھر مسیحا ہوگیا

پیار میں اے دوست کچھ آگے کا کر
قیس کا قصہ پرانا ہوگیا

آج وہ ملنے نہ آئے گی مجھے
فیس بک پر اس سے جھگڑا ہوگیا

اس سے لڑنا تھا محبت ہوگئی
کرنے کیا آیا تھا اور کیا ہوگیا

اس نے چھت پر آکے ذولفیں کھول دیں
یوں ہمارا خواب پورا ہوگیا

ایک لڑکی چوم کر بیدار کی
اور ہونٹوں پر اچنبھا ہوگیا

اس کو چھونے سے میرے افکار کا
برف یوں پکھلا کہ دریا ہوگیا

No comments:

Post a Comment