اس طرح چمکا کہ تارا ہوگیا
وہ اکیلا ہر کسی کا ہوگیا
آنکھ خود خوابوں کی منکر ہوگئی
عشق کا فرمان جھوٹا ہوگیا
راستے تکلیف دینے لگ گئے
پتھروں کا شہر شیشہ ہوگیا
ایک آنسو روکنے کی ضد میں دوست
اتنا رویا ہوں کہ اندھا ہوگیا
اس کو بن دیکھے میں اس پر مر مٹا
بے گناہی میں بھی پرچہ ہوگیا
دھوپ سے تکلیف پہنچی تھی جناب
ماں کا آنچل پھر مسیحا ہوگیا
پیار میں اے دوست کچھ آگے کا کر
قیس کا قصہ پرانا ہوگیا
آج وہ ملنے نہ آئے گی مجھے
فیس بک پر اس سے جھگڑا ہوگیا
اس سے لڑنا تھا محبت ہوگئی
کرنے کیا آیا تھا اور کیا ہوگیا
اس نے چھت پر آکے ذولفیں کھول دیں
یوں ہمارا خواب پورا ہوگیا
ایک لڑکی چوم کر بیدار کی
اور ہونٹوں پر اچنبھا ہوگیا
اس کو چھونے سے میرے افکار کا
برف یوں پکھلا کہ دریا ہوگیا
No comments:
Post a Comment