اس طور اب کے گزری ھے ، اھلِ چمن کی عید
جیسے وطن سے دُور ، غریب الوطن کی عید
دست جمیل ، رنگ حنا کو ترس گئے
بُوئے سَمن کو ڈھونڈتی ھے ، پیراھن کی عید
عارض ھیں زخم زخم ، تو آنکھیں لہُو لہُو
دیکھی نہ ھو گی دوستو ، اِس بانکپن کی عید
گل رنگ قہقوں کی ، فصیلوں سے دُور دُور
نالہ بلب گزر گئی ، غنچہ دَھن کی عید
اے ساکنانِ دشتِ جُنوں , کس نشے میں ھو؟؟
شعلوں کی دسترس میں ھے ، سرو و سمن کی عید
"شکیب جلالی"
No comments:
Post a Comment