رہوں خاموش یا پھر دل کی میں ہر بات کر ڈالوں،
ہِلاؤں لب یا پھر اَشکوں کی ہی برسات کر ڈالوں.
سرِ محفل تمہارا نام لے کے میں کروں رُسوا،
یا پھر ضبطِ مسلسل میں فنا جذبات کر ڈالوں.
زمانے بھر کی رُسوائی مرے سر ڈال دی تو نے،
سمجھ میں کچھ نہیں آتا ہے کیا حالات کر ڈالوں.
بہت دھوکا دیا ہے مجھ کو اِن دن کے اُجالوں نے،
مِرا جو بس چلے اَعظم میں ہر دن کو رات کر ڈالوں
اعظم
No comments:
Post a Comment