Wednesday, 16 November 2016

ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے حال جیسا بھی ہے لوگوں کو سناؤں کیسے

ٹوٹ جائے نہ بھرم ہونٹ ہلاؤں کیسے

حال جیسا بھی ہے لوگوں کو سناؤں کیسے

خشک آنکھوں سے بھی اشکوں کی مہک آتی ہے

میں تیرے غم کو زمانے سے چھپاؤں کیسے

تیری صورت ہی میری آنکھ کا سرمایہ ہے

تیرے چہرے سے نگاہوں کو ہٹاؤں کیسے

تو ہی بتلا میری یادوں کو بھلانے والے

میں تیری یاد کو اس دل سے بھلاؤں کیسے

پھول ہوتا تو تیرے در پہ سجا بھی رہتا

زخم لے کر تیری دہلیز پہ آؤں کیسے

آئینہ ماند پڑے سانس بھی لینے سے عدیم

اتنا نازک ہو تعلق تو نبھاؤں کیسے

وہ رلاتا ہے رلائے مجھے جی بھر کے عدیم

میری آنکھیں ہے وہ میں اس کو رلاؤں کیسے

۔۔۔۔۔۔

عدیم ہاشمی

No comments:

Post a Comment