Friday, 17 January 2020

کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں

کچھ یادگار شہر ستم گر ہی لے چلیں
آئے ہیں اس گلی میں تو پتھر ہی لے چلیں 

یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر 
سر پر خیال یار کی چادر ہی لے چلیں 

رنج سفر کی کوئی نشانی تو پاس ہو 
تھوڑی سی خاک کوچۂ دلبر ہی لے چلیں 

یہ کہہ کے چھیڑتی ہے ہمیں دل گرفتگی 
گھبرا گئے ہیں آپ تو باہر ہی لے چلیں 

اس شہر بے چراغ میں جائے گی تو کہاں 
آ اے شب فراق تجھے گھر ہی لے چلیں 
۔۔ ناصر کاظمی ۔۔

No comments:

Post a Comment